مقروض کا حج کو جانا
⭕ آج کا سوال نمبر ۱۰۶۵ ⭕
قرضدار کے لیے حج کو جانے کا کیا حکم ہے؟
قرضدار کے لیے نفل حج کے لیے جانا کیسا ہے؟
تجارتی قرضوں کا کیا اعتبار ہے؟
🔵 جواب 🔵
حامداومصلیاومسلما
اگر فی الحال قرض خواہوں کا مطالبہ نہ ہو اور وہ بخوشی حج پر جانے کی اجازت دے
یا قرضدار اپنے قرضے کا کسی کو ذمہ دار بنا دے اور قرض خواہ کو اطمینان ہو جاۓ اور وہ اجازت دے دے تو وہ شخص حج کے لیے جا سکتا ہے
نیز قرضدار حج پر جانے والے شخص پر جتنے قرضے ہو احتیاطا اس کا وصیت نامہ لکھ دے اور وارثوں کو تاکید کر دے کہ اگر میری موت واقع ہو جائے اور میرے ذمے قرض باقی رہ جاۓ تو میرے ترکے یعنی وراثت سے پہلے قرضہ ادا کردے اگر ترکے میں سے ادائیگی کی گنجائش نہ ہو تو اپنے پاس سے ادا کر دینا یا اس سے معاف کروا لینا
اگر قرض خواہ کی اجازت کے بغیر حج پر چلا جائیگا تو اگرچہ فریضہ ادا ہو جائیگا لیکن مکروہ ہوجائیگا
اگر اسی وقت قرض ادا کرنے کی گنجائش ہو تو اسی وقت ادا کردے اس کی بہت ہی زیادہ اہمیت ہے
انتظام ہوتے ہوئے بھی قرض ادا نہ کرنا گناہ ہے ( نیز قرض باقی رکھکر حج کے دوران لمبی چوڑی خریدی کرنے کی اجازت قرض خواہ نے نہیں دی ہوتی ہے اسکی اجازت الگ سے حاصل کرے )
حدیث شریف میں آتا ہے کہ مالدار کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے
جو شخص فرض حج ادا کر چکا ہو اور نفلی حج کرنے جانا ہو اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ قرضہ ادا کردے اس بارے میں بہت کوتاہی ہو رہی ہے اس کے بالمقابل غریبی کی حالت میں جبکہ دوسروں کے حقوق اپنے ذمے ہو انکے حقوق کی ادائیگی کی اہمیت حج نفل سے کہیں زیادہ ہے
📗 فتاوی رحیمیہ ۸/۲۸۲
بحوالہ
📒 شامی ۲/۲۰۵
درمختار ۲/۱۹۱
تجارتی قرض جو عادتا ہمیشہ جاری رہتا ہے اس میں داخل نہیں ایسے قرضوں کی وجہ سے حج کو مؤخر نہیں کیا جائیگا
📗 احکام الحج از حضرت مفتی شفیع صاحب عثمانی رحمت اللہ علیہ ۲۴
واللہ اعلم
✏عمران اسماعیل میمن حنفی استاذ دار العلوم رام پورا سورت گجرات ھند
Subscribe Our Youtube Channel
http://Www.youtube.com/BayanatPost
Download Our Android App
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.islam.group
No comments:
Post a Comment