*تبلیغ پہلے گھر میں پھر باہر؟*
⭕ آج کا سوال نمبر ۱۲۶۷ ⭕
ایک شخص پنچ گانہ نماز پڑھتا ہے کبھی کبھی تبلیغی جماعت میں چلہ بھی لگا لیتا ہے
اس مسجد کے امام جو کہ مستند عالم بھی ہے انکا کہنا ہے کہ تبلیغ پہلے اپنی بستی میں اپنے گھر میں ہونی چاہئے اپنے گھر میں سارے نمازی ہو اور بستی میں بھی کوئ بے نمازی نہ رہے اس طرح گھر گھر تبلیغ کرو اس کے بعد باہر جانا چاہئے اور دلیل میں قرآن کی آیت پیش کرتے ہیں
یا ایھا الذین آمنوا قوا انفسکم واھلیکم نارا... الخ
کیا انکی بات درست ہے؟؟؟
🔵 جواب 🔵
حامداومصلیاومسلما
اپنے گھر اور اپنی بستی کا حق باہر والوں پر یقینا مقدم ہے لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ جب تک بستی والے پورے پابند نہ ہو جائے دوسروں تک پیغام نہ پہنچایا جائے مثلا کسی جگہ دینی مدرسہ جیسے دارالعلوم دیوبند ہے یہاں اس بات کی پابندی نہیں کی گئی ہے کہ سارے علاقے کے لوگوں کو عالم بنایا پھر ہی دوسرے علاقوں کے طلباء کو داخلہ دیا جاۓ اور نہ ہی کسی بزرگ کے متعلق یہ معلوم ہوا ہے کہ اپنے گھر اور بستی والوں کی سبھی کی اصلاح کۓ بغیر باہر کے لوگوں کی بیعت نہ لی ہو نہ ہی کسی حافظ صاحب یا عالم نے بچوں کو پڑھانے کے معاملے میں اس بات کا اہتمام کیا ہو بلکہ عموما دیکھا یہ گیا ہے کہ گھر اور بستی کے لوگ فیض حاصل نہیں کرتے باہر والے کر لیتے ہیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف تشریف لے جانے سے پہلے کیا سارے مکہ کو مسلمان کر لیا تھا
یہ جواب اس وقت ہے جب تبلیغ کا مقصد دعوت پہنچانا ہو
اور اگر تبلیغ جماعت میں جانے کا مقصد محنت و مجاہدہ کرکے اپنے دین کو پختہ بنانا یا دین سیکھنا ہو تب تو یہ سوال ہی فضول ہے
📚 حقیقت تبلیغ صفحہ ۸۵
واللہ اعلم بالصواب
✏عمران اسماعیل میمن استاذ دار العلوم رام پورہ سورت گجرات ھند
No comments:
Post a Comment