*شب برات میں اجتماعی عبادات*
⭕ آج کا سوال نمبر ١۳۴۱⭕
مخصوص راتوں میں نفلی عبادات مسجد میں نہیں کرنا چاہیے بلکہ گھر ہی میں کرنی چاہیے کیا یہ بات صحیح ہے؟
🔵 جواب 🔵
حامدا و مصلیا و مسلما
مسجد میں عبادت کرنے کی ایک صورت تو یہ ہے، کے مغرب یا عشاء کی نماز پڑھنے آیا تھا تو اسکے ساتھ میں بڑی رات کی نفلی عبادات بھی ضمنن پڑھ لی تو اس میں کوئی حرج نہیں، البتہ اس نفلی عبادت کو گھر میں کرتا تو بہتر اور زیادہ ثواب تھا،
کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تہجد اور فرض نماز کے بعد کی سنت، نفلیے گھر میں پڑھتے تھے، اس کے باوجود کہ گھر تنگ تھا، اور چراغ تک کا انتظام نہیں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں سجدہ کرتے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی عنہا کے پیر کو حضور چھوتے تاکہ وہ اپنے پیر سکڑ لیں اور آپ سجدہ کر سکے، اور آپ جب سجدے سے کھڑے ہوتے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے پاؤں واپس پھیلا لیتے،
جگہ کی اتنی تنگی اور مسجد نبوی جہاں پچاس ہزار نماز کا ثواب، اتنی قریب کے پاؤں باہر نکالو تو مسجد نبوی میں پڑے پھر بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نفلی عبادات گھر ہی میں ادا فرماتے،
دوسری صورت یہ ہے کے اپنی ضروریات سے فارغ ہوکر خاص کر کے مسجد میں جمع ہوکر عبادت کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کے خلاف، بدعت اور شریعت پر زیادتی ہے
بعض لوگ عذر کرتے ہیں کہ کھر میں نیند آتی ہے، یا بچہ روتے ہیں، دل نہیں لگتا اور زیادہ عبادت نہیں ہوتی، تو اسکا جواب یہ ہیں کے خشوع اور خضوع نام ہے سنت کی اتباع کا، جس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق عبادت کر لی تو اسے خشوع حاصل ہے،
اگرکوئی لاکھ آہ و زاری کرے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ پر نہیں تو وہ شریعت کی نگاہ میں اس کو خشوع نہیں کہا جائگا،
اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک عبادات کی کمیت مقصود نہیں بلکہ کیفیت مقصود ہیں،
گھر میں سنت کے مطابق جتنی دیر عبادت ہوسکے کرے، طبیعت اکتا جائے اور نیند آئے تو سو جائے یہ بات حدیث سے ثابت ہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ تنہائی میں دعا راز و نیاز کے چند لمحہ مجمع اور بھیڑ میں پوری رات عبادت کرنے سے بہتر ہیں،،
📘مسائل شب برات و شبِ قدر رفعتی صفہ ۶۳ سے ۶۵ کا خلاصہ باحوالہ
📙 احسن الفتاوی ۱/۳۷۳
واللہ اعلم بالصواب
*✍🏻 مفتی عمران اسماعیل میمن حنفی چشتی*
*🕌 استاذ دار العلوم رام پورہ سورت گجرات ہند*
No comments:
Post a Comment