*اساتذہ کو تبلیغی جماعت میں جانے کی چھٹی*
⭕ آج کا سوال نمبر ۱۲۷۳ ⭕
عربی مدارس اور مکاتب کے اساتذہ کو تبلیغی جماعت میں جانے کے لیے ماہانہ ۳ روز یا سالانہ ۴۰ روز یا زندگی کے ۴ ماہ کی ترتیب یا ایک سال کی ترتیب کے لئے ادارے کے ذمہ داران کا تنخواہ کے ساتھ چھٹی دینا صحیح ہے؟؟
🔵 جواب 🔵
حامداومصلیاومسلما
اگر ضرورت ہے تو دے بھی سکتے ہیں کیونکہ تبلیغی جماعت کا مقصد دین کی اشاعت بھی ہے.... آخر مدارس والے مدرسے کے پیسے سے دینی رسائل بھی تو نکالتے ہیں مدارس کے پیسوں سے دینی وعظ و تقاریر کے لئے بھی بھیجتے ہیں جلسوں میں شرکت کے لیے بھی بھیجتے ہیں یہ سب کے سب تعلیم کے مقاصد ہیں اگر وہاں کے لوگ سفر کو مناسب سمجھتے ہیں اور اسکی ضرورت بھی ہے تو تنخواہ کے ساتھ بھی چھٹی کر سکتے ہیں
📚 حقیقت تبلیغ صفحہ ۱۱۰
حضرت سید مفتی عبد الرحیم لاجپوری صاحب رحمت اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ مدارس میں تعمیرات میں کافی سے زائد خرچ کیا جاتا ہے حالانکہ مدارس میں تعمیرات مقصود بالذات نہیں ہے بلکہ مقصود اصلی تعلیم ہے پھر اساتذہ کے اضافے اور انکی تنخواہوں کے اضافے میں کوتاہی کیوں کی جاۓ.....
خلاصہ یہ ہے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تبلیغ میں مشغولیت بھی ہونی چاہیے دینی انجمنیں تبلیغی کام کی ذمہ داری سے سبکدوشی نہیں ہو سکتے لہذا تعلیم کے ساتھ تبلیغ میں بھی دلچسپی لیں اور مدرسین کو جاری تنخواہ پر تبلیغی کام کے لیے بھیجے
شیخ الاسلام حضرت مدنی رحمت اللہ علیہ اسی قسم کے ایک سوال کے تحریر فرماتے ہیں کہ مجھ کو یہ معلوم ہوا ہے کہ بعض ممبران شوری کو انکے مدرسین کی تنخواہوں کے جاری رکھنے کے بارے اعتراض اور شبہات ہے
مسلمانوں کے تعلیمی ادارے صرف تعلیمی خدمات انجام دینے کے لیے نہیں بناۓ گۓ بلکہ مسلمانوں کی مذہبی و دینی و دوسری ضروری خدمات بھی انکے فرائض میں شامل ہیں
یہی وجہ ہے کہ جنگ بلقان کے موقع پر حضرت نانوتوی رحمت اللہ علیہ نے ایک عظیم الشان مقدار چندے کی جمع کرکے خلافت عثمانیہ ترکی کو بھیجی تھی اس زمانے میں دارالعلوم دیوبند میں چھٹی رہی اور تنخواہ بھی دی گئی تھی
شدھی سنگٹھن کے نحوستوں کے زمانے میں بھی مالکانہ اور راجپتانہ کے علاقوں میں علماء کے وفود بھیجے گۓ اور انکی بھی تنخواہیں جاری تھیں
📚 فتاوی رحیمیہ جدید ۴/۱۴۵ کتاب العلم والعلماء
واللہ اعلم بالصواب
🖋عمران اسماعیل میمن استاذ دار العلوم رام پورہ سورت گجرات ھند
No comments:
Post a Comment