Tuesday, April 10, 2018

شب معراج کی عبادت بدعت کیوں

*شب معراج کی عبادت بدعت کیوں*

⭕ آج کا سوال نمبر ۱۳۲۲⭕

شب معراج کی عبادت کرنا بدعت کیوں ہے؟
سو جانے سے بہتر عبادت کیوں نہیں؟

🔵 جواب 🔵

حامداومصلیاومسلما
اگر مان بھی لیا جائے کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم ۲۷ رجب ہی کو معراج پر تشریف لے گئے تھے جس میں اللہ تعالی نے اپنے حبیب کو مخلوقات میں سب سے بلند مقام عطا فرمایا کہ اپنے روبرو حاضری اور ہم کلامی سے مشرف فرمایا
اور امت کے لئے نمازوں کا تحفہ بھیجا

تب بھی خود
👈🏻آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں معراج کے سفر کے بعد ۱۸ مرتبہ شب معراج آئی 👉🏻

اسطرح کے یہ واقعہ ۵ نبوی میں پیش آیا اسکے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ۱۸ سال دنیا میں تشریف فرما رہے

لیکن کہیں ثابت نہیں ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج کے بارے میں کوئی خاص حکم دیا ہو یا اس شب کو خصوصیت کے ساتھ منانے کا اہتمام فرمایا ہو یا ایسا فرمایا ہو کہ اس رات میں عبادت کرنا شب قدر میں عبادت سے زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے
اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کی کوئ تاکید فرمائی اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے خود اپنے طور پر کبھی اس کا اہتمام فرمایا

👈🏻 اسکے برابر کوئی احمق نہیں 👉🏻
پھر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرما لینے کے بعد تقریبا ۱۰۰ سال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دنیا میں وہے ان ۱۰۰ سالوں میں کوئ ایک واقعہ ایسا ثابت نہیں
جب کوئی بات نہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں تو ایسی چیز کو دین کا حصہ قرار دینا یا سنت قرار دینا یا سنت جیسا معاملہ کرنا بدعت کہلاتا ہے
یہ گویا ایسا ہے کہ کوئی شخص کہے کہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ علم رکھتا ہوں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ ذوق عبادت رکھتا ہوں
ایسا سوچنے والے کے برابر کون احمق ہو سکتا ہے

👈🏻 بنیے سے سیانا سو باولا👉🏻
حضرت شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی دام ظلہ کے والد مرحوم مفتی محمد شفی صاحب رحمت اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ہندوستان میں ایک کہاوت مشہور تھی اب تو لوگ اسکے معنے بھی نہیں سمجھتے وہ یہ تھی
... بنیے سے سیانا سو باولا.....
یعنی جو شخص یہ دعوی کرے کہ میں بنیے سے زیادہ ہوشیار ہوں اس سے زیادہ تجارت کے گر جانتا ہوں... تو وہ شخص باولا یعنی پاگل ہو سکتا ہے...

ٹھیک اسی طرح.......... 🔵
👈🏻 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ دین کو جاننے والا کون ہو سکتا ہے؟ 👉🏻
جہاں تک دین کا تعلق ہے یہ بات ہر کوئ جانتا اور مانتا ہے کہ سب سے زیادہ دین کو سمجھنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور انکے بعد تابعین تبع تابعین تھے اور سب سے زیادہ دین پر مکمل اور صحیح طریقے سے عمل کرنے والے تھے
اب اگر اپنے عمل کے ذریعے زبان حال سے یہ کہے کہ.. نعوذباللہ... میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین تبع تابعین رحمہم اللہ سے زیادہ دین جانتا ہوں اور ان مبارک ہستیوں سے زیادہ دین پر عمل اور عبادت کا ذوق رکھتا ہوں تو وہ شخص باولا اور پاگل اور بے دین ہی ہو سکتا ہے

🔵 لہذا
👈🏻 اس رات میں عبادت کا اہتمام بدعت ہے 👉🏻
یوں تو ہر رات میں اللہ جس عبادت کی توفیق دے وہ بہتر ہی بہتر ہے لہذا چاہیے جتنا ہو سکے  آج کی رات بھی جاگ لیں کل کی رات یعنی ۲۷ رجب کی رات بھی جاگ لیں پرسوں کی رات بھی جاگ لیں عبادت کر لیں ۲۷ کی شب میں کوئ نمایاں فرق نہیں ہونا چاہیئے

👈🏻 ۲۷ رجب کا روزہ ثابت نہیں 👉🏻
بعض لوگ ۲۷ رجب کے روزے کو اسی طرح فضیلت والا روزہ سمجھتے ہیں جیسا کہ عاشورہ اور عرفات کا روزہ فضیلت والا ہے.....
بات در اصل یہ ہے کہ ایک یا دو ضعیف روایات اس کے بارے میں ملتی ہیں لیکن صحیح سند سے کوئی روایت ثابت نہیں

👈🏻 ایک عجیب سوال👉🏻
رات میں جاگ کر عبادت کرلی تو کونسی برائ کرلی.....
اور دن میں روزہ رکھ کر کونسا گناہ کر لیا؟

🔵 جواب یہ ہے کہ
👈🏻 دین اتباع کا نام ہے
امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بتلا دیا کہ
... خرابی یہ ہوئ کے
اس رات کی عبادت یا اس دن میں روزہ رکھنے کے لئے اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا اور ایسے کسی عمل کو دین سمجھنا یا اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا
اور اس عمل کو کرنا پھر چاہے نماز ہو روزہ ہو دین نہیں بے دینی کہلائیگا
اسی کو بدعت کہینگے
اور ایسے طریقے سے ۲۷ رجب کی رات کے جاگنے اور عبادت کرنے اور دن کے روزے کو سنت اور عبادت سمجھنے والا
👈🏻 دین میں زیادتی کرنے والا کہلائیگا 👉🏻

🔵 اس ۲۷ رجب کی رات کی تو کوئ اصل بھی ہے کہ اس رات کا تعلق معراج کے عظیم واقعے سے ہے
لیکن کچھ دن پہلے ایک بدعت گذری ہے کونڈے کی..... اسکو تو بہت سے بیچارے نا سمجھ لوگ ضروری اور لازمی سمجھتے ہیں جبکہ اسکی تو کہیں کوئی اصل ہے ہی نہیں.....

......................................... در اصل
👈🏻 حقیقت روایات میں کہو گئی
یہ امت خرافات میں کہو گئی 👉🏻
عزیزو ان چیزوں نے امت کو خرافات میں مبتلا کر دیا ہے
ایسی چیزوں کو سنت یا ضروری اور لازمی سمجھ لیا گیا ہے جن کی سنت سے کوئی اصل نہیں یا دین ہی میں کوئ اصل نہیں
ہمارے ان مسلمانوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے وہ بیچارے ناسمجھی اور جہالت میں ایسا کر رہے ہیں کوئی دین سے یا دین داروں سے عناد میں نہیں کر رہے ہیں اسلئے ایسے مسلمانوں کو شفقت و محبت سے حکمت سے سمجھایا جائے انکے لئے دعائیں کی جائے
اور ایسی تقریبات سے خود بھی دور رہیں اور دوسروں کو بھی دور رکھنے کی کوشش کریں

🔵👈🏻 خلاصہ تحریر یہ ہے 👉🏻🔵
رجب کا مہینہ رمضان کے مہینے کا مقدمہ ہے اسلئے رمضان کے لئے اپنے آپ کو پہلے سے تیار کرنے کی ضرورت ہے
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مہینے پہلے سے دعاء فرمایا کرتے تھے اور امت کو بھی سکھایا وہ دعاء یہ ہے.......
اللھم بارک لنا فی رجب و شعبان و بلغنا رمضان.....

اور گویا اس کے ذریعے توجہ دلائی کہ اب اس مبارک مہینے کی تیاری کرو اور اس کا نظام الاوقات اس طرح بناو کہ اس مبارک مہینے کا زیادہ سے زیادہ وقت اللہ کی عبادت میں صرف ہو

👈🏻 دعاء ہے
اللہ تعالی اپنی رحمت سے دین کی صحیح سمجھ عطاء فرمائے اور صحیح طریقے سے عمل کی توفیق عطاء فرمائے
آمین.

📗 ماخوذ از پرچہ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی دام ظلہ

واللہ اعلم
اللہ

No comments:

Post a Comment

AETIKAF KE MAKRUHAAT

*AETIKAF KE MAKRUHAAT* ⭕AAJ KA SAWAL NO.2101⭕ Aetikaaf kin cheezon se makrooh hota hai?  🔵JAWAB🔵 Aetikaf niche dee hui baton se makrooh ho...