*🗡🐑جانوروں کو ذبح کرنا ظلم نہ ہونے کی۱۲ دلیلیں🐃🔪*
⭕ آج کا سوال نمبر ۱۸۰۹⭕
کیا جانوروں کی قربانی کرنا یہ ان پر ظلم ہے؟
غیروں کا کہنا ہے کہ اسلام کا یے طریقہ رحم کے خلاف ہے، ان کا یہ کہنا کیسا ہے؟ کچھ عقلی دلیلیں پیش کریں تاکہ ان کو سمجھانے میں آسانی ہو؟
🔵 جواب 🔵
حامدا و مصلیا و مسلما
۱، اللہ تعالیٰ جانوروں کا مالک ہے، مالک کو اپنی ملکیت میں تصروف کرنے کا اختیار ہوتا ہے، کسی دوسرے کے پھٹے ہوئے کپڑے کو پھاڑنا بھی ظلم ہے لیکن مالک کا بہترین کپڑے کو اپنے کام کے لیے پھاڑ دے تو اس کو کوئی ظلم نہیں کہتا، مسلمانوں کو جانوروں کے پیدا کرنے والے اور مالک اللہ نے قربانی کرنے کا حکم قران میں سورہ کوثر میں *"وانحر"* قربانی کرو کہ کر دیا ہے اس لیے قربانی کرتے ہیں،
۲، قربانی ہر مذہب میں بلیدان، بھوگ، بلی، بھیٹ چڑھانا وغیرہ نام سے موجود ہے،
۳، مرغی مچھلی جھینگے وغیرہ کو دوسرے مذہب والے بھی مارتے اور کھاتے ہیں، تو پھر اعتراض مسلمانوں پر ہی کیوں؟
*مچھیروں سے کیوں ڈرتے ہو؟ ان کو کوئی کیوں نہیں روکتا*
۴، سبزیاں پھلوں پھولوں میں بھی جان ہے، ان کو بھی ہوا پانی اور روشنی کی ضرورت ہے، سائنس کہتا ہے وہ بھی جاندار ہیں، جیو رحم پر جاؤگے تو اسے کھانا بھی چھوڑنا پڑے گا، چھوٹی مخلوق میں برداشت کی طاقت کم ہوتی ہے، بڑی مخلوق میں برداشت کی طاقت بڑی ہوتی ہے، لہذا تکلیف پہنچنے میں چھوٹا جیو اور بڑا جیو یکساں ہیں، فرق کرنا غلط ہے،
*۵، اسلام مذہب پوری دنیا کے ہر کونے کے لئے ہے،* جہاں صرف برف ہی برف، اور ریگستان ہی ریگستان ہو جہاں سبزیاں نہیں ہوتی وہاں کے لوگوں کو جانور ذبح کرنے سے منع کیا جائے تو وہ کیا کھائیں گے،؟
*۶، گوشت کھانا*
فطری چیز ہے اس لئے اللہ نے انسان کو چیر پھاڑ کر کھانے والے جانور کی طرح اوپر کے دو نوکیلے دانت اور چبانے کے لیے گول داڑھے دی ہے، سبزی کھانے والے جانور کو نہ نوکیلے دانت دئے نہ گول داڑھے دی، بلکہ سب دانت سیدھے اور چپٹی داڑھے دی، لہذا یہ نوکیلے دانت و گول داڑھے سبزی کھانے نہیں دی، بلکہ گوشت کھانے دی ہے،
۷، جانور کو ذبح نہ کرتے تو بھی وہ ایک نا ایک دن بیماری میں مبتلا ہو کر تڑپ تڑپ کے ضرور مرتا وہ ہمیشہ نہیں جیتا ہے، اس لئے اپنی سمجھ میں آسان موت ہی کے لئے بعض انسان خودکشی کرتے ہیں، تاکہ بیماری کی تکلیف نہ اٹھانی پڑے،
۸، جو جانور بانجھ ہے بچے نہیں جنتے، دودھ نہیں دیتے اور بوڑھے کمزور ہو گئے ہیں انکو گھاس چارہ کھلانے میں گھاس چارہ کم ہوتا ہے، پیسے بھی ضائع ہوتے ہے اور بہتر جانور کے چارے کا حق کم ہو جاتا ہے یا جو باہر چرنے کے لئے چھوڑنے میں پلاسٹک کی تھیلیاں، کچرا کھا کر مرتی ہے، عقل یہ کہتے ہے ایسے جانوروں کو ذبح کر دینا چاہیے تاکہ گھاس چارہ میں بچت ہو اور وہ اچھے جانوروں کو ملے اور اس سے ان جانوروں کی صحت و تندرستی میں اضافہ ہو اور دودھ میں بڑھوتری ہو، ایسا کرنا ان اچھے جانور پر رحم ہے،
۹، ظلم کا مطلب صرف تکلیف پہنچانا ہو تو ہر قوم کو کھٹمل، مچھر، چوہا وغیرہ تکلیف پہنچانے والے جانور کو صرف بھگانے کی یا پکڑ کے کہیں چھوڑ آنے کی دوا یا مشین استعمال کرنی چاہیے، اسکے بجائے جان سے مار ڈالتے ہے اس کی معمولی سی تکلیف جس سے انسان کی جان کا خطرہ نہیں اپنی راحت کے لئے مار ڈالتے ہے پتا یہ چلا کہ انسان سب سے بہتر مخلوق ہے اپنے فائدہ کے لیے ادنی مخلوق کو مار سکتا ہے،
۱۰ جانور کا دودھ ہر قوم پیتی ہے، باوجود اس کے کہ وہ اس جانور کے بچے کا حق ہے جب یے ظلم نہیں تو گوشت کھانا کیسے ظلم ہوگا،
۱۱۔مسلمان اپنی محنت کی کمائی سے قیمتی جانور خریدتا ہے اسے اپنے قریب رکھکر اپنے ھاتھوں سے اسے کھلاتا ہے پلاتا ہے بمار ہوتا ہے تو دواء کرواتا ہے اسے محبت اور تعلق ہو جاتا ہے، فطری رحم اور محبت کی وجہ سے اسے ذبح کرنے کو دل نہیں چاہتا پھر بھی اللہ کا حکم ذبح کرنے کا ہے تو اپنے مالک ے اس حکم ک سامنے اپنی ان تمام جذبات، رحم، محبت اور تعلق کی قربانی اللہ کو راضی کرنے کے لئے دے کر اس بات کی گواہی دیتا ہے کی ہماری عقل، خواہش اور تمنا کی اللہ کے حکم کے سامنے کوئی حیثیت نہیں اللہ کا حکم ہر چیز سے بڑا ہے
۱۲۔ جانور کو ذبح نہ کرتے تو ایک نہ ایک دن مرکر مٹی میں مل جاتا اور اسکی کوئی چیز کسی کے کام میں نہ آتی ہم اسے ذبح کر کے اس کے گوست کو اپنے پیٹ میں جگہ دیتے ہے اس سے ہمارا خون اور گوشت بن کر وہ ہمارے دل اور جسم کا حصہ بن جاتا ہے اسے ہمارے اندر جگہ دینا یہ جانور سے حسن سلوک ہے۔اس کی خال ہڈیاں وغیرہ بھی انسان جو سب سے بہتر مخلوق ہے اس کے کام میں آتی ہے یہ تو اس جانور کی خوش نصیبی ہے کہ اس کی ہر چیز کام میں آئی اسے ہم نے بیکار نہیں کیا اس پر ہم نے رحم کیا اور کام کا بنا دیا
✍🏻مفتی عمران اسماعیل میمن حنفی چشتی
🕌 استاذ دار العلوم رام پورہ سورت گجرات ھند
No comments:
Post a Comment