*قربانی کی کھال کا حکم*
⭕ آج کا سوال نمبر ۱۸۲۱ ⭕
1⃣ قربانی کی کھال اپنے کام میں لا سکتے ہیں؟
2⃣ قربانی کی کھال مسجد یا مدرسہ میں دے سکتے ہیں؟
3⃣ قربانی کی کھال امام یا مؤذن کو دے سکتے ہیں؟
🔵 جواب 🔵
حامداومصلیاومسلما
1⃣ جی ہاں قربانی کی کھال اپنے استعمال میں لا سکتے ہیں البتہ اگر بیچ دی تو اسکی قیمت غریب کو صدقہ کرنا لازم ہوگا
📗 کتاب المسائل ۲/۲۵۰
2⃣ قربانی کی کھال جب تک. نہ بیچے تب تک گوشت کی طرح ہے اور اسی کے حکم میں ہے یعنی جسطرح گوشت کسی کو بھی دے سکتے ہیں اسی طرح کھال بھی کسی کو بھی دے سکتے ہیں پھر جسکو دی وہ چاہے استعمال کرے چاہے بیچ دے اس کے لیے جائز ہے
البتہ جسنے قربانی کی اسکے جانور کی کھال اگر اس نے بیچ دی تو اسکی قیمت زکوة کی طرح کسی مستحق کو صدقہ کرنا لازم ہوگا
*مسجد میں کھال نہیں دے سکتے اسلئے کہ مسجد میں کوئی مالک نہیں بن رہا ہے*
جبکہ مدرسہ میں دینا جائز ہے کیونکہ وہاں کھال کو بیچ کر مدرسے میں پڑھنے والے ضرورت مند بچوں پر خرچ کیا جاتا ہے اسی طرح کسی رفاہی تنظیم یا جماعت کو اگر وہ کھال بیچ کر اسکی رقم کتابیں یا کپڑے یا مکان وغیرہ مالک بنا کر دیتے ہیں تو انکو بھی دے سکتے ہیں
..... اگر کوی ادارہ غریبوں کو مالک بنا کر نہیں دیتا بلکہ اس رقم کو جماعت کے کاموں میں استعمال کرتا ہے یا لوگوں کو بطور قرض یا عاریتا استعمال کے لئے دیتا ہے تو ایسے ادارے کو نہیں دینا چاہیے
نوٹ.. کھال بیچ کر اسکی رقم جتنا جلد ہو سکے اسکے حق دار تک پہنچا دینا چاہیے بلا شرعی وجہ کے تاخیر کرنا کراہت سے خالی نہیں ہے
📗 مستفاد از آپ کے مسائل اور انکا حل ۵/۴۶۶
📙 فتاوی رحیمیہ کراچی ۱۰/۴۲
3⃣ امام یا مؤذن کو وغیرہ حضرات کو انکی تنخواہ میں کھال نہیں دے سکتے
ھدیہ کے طور پر دے سکتے ہیں
📒 مستفاد از آپ کے مسائل اور انکا حل ۵/۴۶۶
واللہ اعلم بالصواب
*✍🏻 مفتی عمران اسماعیل میمن حنفی*
*🕌 استاذ دار العلوم رام پورا سورت گجرات ھند*
🗒 آج کا کلینڈر 🗒
🌙۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ذی الحجہ
🌴۱۴۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔ھجری
No comments:
Post a Comment